۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
حجت الاسلام تلخابی

حوزه/ مدرسه علمیه حجتیہ کے سربراہ حجۃ الاسلام والمسلمین ڈاکٹر مجید تلخابی نے سلسلہ وار درس تفسیر میں "صیہونیزم و اسرائیل کے ساتھ دشمنی کے قرآنی مبانی"کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہودیت کی اسلام دشمنی کے علل و اسباب کو قرآن نے مختلف جگہوں پر بیان کیا ہے۔

حوزه نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مدرسہ علمیہ حجتیہ کے سربراہ حجۃ الاسلام والمسلمین ڈاکٹر مجید تلخابی نے سلسلہ وار درس تفسیر میں "صیہونیزم و اسرائیل کے ساتھ دشمنی کے قرآنی مبانی"کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہودیت کی اسلام دشمنی کے علل واسباب کو قرآن نے مختلف جگہوں پر بیان کیا ہے اور ہم ان چند آیات کے ذیل میں یہود و اسرائیل کے ساتھ دشمنی کی اصل وجوہات پر روشنی ڈالیں گے۔

اسرائیل سے دشمنی قرآن کریم کی تعلیمات کے عین مطابق ہے، حجت الاسلام ڈاکٹر تلخابی

انہوں نے مزید کہا کہ یہودیوں کی اسلام دشمنی کے بہت سے مبانی و دلائل ہیں ان میں سے پانچ اہم دلائل و مبانی کی جانب اشارہ کریں گے:

1.یہود کی نسل پرستی:

وَلَنْ تَرْضَىٰ عَنْكَ الْيَهُودُ وَلَا النَّصَارَىٰ حَتَّىٰ تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ ۗ قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدَىٰ ۗ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُمْ بَعْدَ الَّذِي جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ ۙ مَا لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ (البقرہ: آیت 120) یہ آیت یہود کی نسل پرستی کی جانب اشارہ ہے۔ وہ راضی نہیں ہوں گے جب تک ان کے آئین کو قبول نہ کرے۔ اس سے کم پر ہرگز وہ راضی نہیں ہوں گے۔اس آیت کے مطابق اگر دشمن راضی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ کہیں معاملہ مشکل ہے، جس کی جانب امام راحل نے اشارہ کیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا اس آیت میں ایک اور نکتہ یہ ہے کہ یہاں خطاب پیعمبر سے ہے جو کہ معصوم ہے۔یعنی پیغمبر واسطہ ہے۔اصل خطاب امت سے ہے۔یہودی اپنی نسل پرستی کو اسلام کے ساتھ سازگار نہیں سمجھتے تھے اس لیے انہوں نے انکار کیا۔

2.یہود کی برتری طلبی

وَقَالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّامًا مَعْدُودَةً ۚ قُلْ أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا فَلَنْ يُخْلِفَ اللَّهُ عَهْدَهُ ۖ أَمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ (البقرہ:آیت 80) قوم یہود خود کو دیگر اقوام سے بہتر وبرتر سمجھتی ہے۔ہم قوم برتر ہیں۔جب کہ یہ آیت ان کے دعویٰ کی نفی کرتی ہے۔خدا کا کسی کے ساتھ عہد وپیمان نہیں۔عصر پیغمبر کے دور سے ہی برتری ونسل پرستی کامادہ قوم یہود میں تھا۔اسرائیل کا فلسفہ بھی یہی ہے۔

اس آیت میں جو نکتہ ہے۔وہ یہ ہے کہ اگر کوئی غلط بات کرے، شبہہ ایجاد کرے تو جواب دے۔ایک اور نکتہ یہ بھی ہے۔برتری، عمل کے بغیر درست نہیں۔ آرزو وتمنا عمل کے بغیر ممنوع ہے۔

3.یہود کی دنیا طلبی:

وَلَتَجِدَنَّهُمْ أَحْرَصَ النَّاسِ عَلَىٰ حَيَاةٍ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا ۚ يَوَدُّ أَحَدُهُمْ لَوْ يُعَمَّرُ أَلْفَ سَنَةٍ وَمَا هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنَ الْعَذَابِ أَنْ يُعَمَّرَ ۗ وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِمَا يَعْمَلُونَ۔(البقرہ:96)

حجت الاسلام والمسلمین تلخابی نے کہا کہ یہ آیت یہودیوں کی دنیا پرستی کی جانب اشارہ ہے۔جہاں بھی اپنا مقصد حاصل وہاں موجود ہیں۔ اس لیے جب دیکھا۔دین پیغمبر دنیا طلب نہیں۔ اور ان کی دنیاوی ضروریات پیغمبر سے مکمل نہیں ہورہی۔تواسلام اور پیغمبر سے دشمنی شروع کی۔

4. یہود کی سلطنت طلبی:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَىٰ أَوْلِيَاءَ ۘ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ۔(المائدہ:آیت 51) دشمن سے نفرت وبرآت کا اظہار شرط ایمان ہے۔اگر کوئی دشمنان خدا کی ولایت قبول کرے تو خدا کی ولایت سے وہ جدا ہواہے۔کیونکہ دشمن کی دوستی کے ذریعے وہ تسلط حاصل کرنا چاہتا ہے۔

یہودیوں کی طولانی عمر کی تمنا بھی یہود کی آمرانہ سوچ کی دلیل ہے، ساتھ ہی کفار وعدہ میں ایک دوسرے کے وفادار ہیں، لیکن مسلمانوں کے مقابلے میں نہیں۔ کفار پر اعتماد گمراہی ہے، جس کی جانب آیت کے آخر میں اشارہ کیا گیا ہے۔ ان الله لا یھدی القوم الکافرین۔۔

5.نیل سے فرات تک کا نظریہ:

یہود کے اسلام دشمنی کا ایک اہم سبب اعتقادی یہلو نیل سے فرات تک کا نظریہ ہے۔اس لیے وہ دہشت گردی کے ذریعے دنیا پر تسلط چاہتاہے۔اس لیے اسرائیل عالم انسانیت اور اسلام کا دشمن نمبر ایک ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ صیہونیزم نسل پرستی، دنیا طلبی، عہدشکنی، تسلط طلبی جیسی خصوصیات کاحامل ہے، یہ صفات جس کسی میں بھی ہو۔وہ انتہائی خطرناک ہے۔ان سے دوری اختیار کرنا چاہیئے۔

اسرائیل سے دشمنی قرآن کریم کی تعلیمات کے عین مطابق ہے، حجت الاسلام ڈاکٹر تلخابی

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .